اسلام میں مادری زبان اور ثقافت
قرآن اور احادیث میں بہت سے حوالہ جات موجود ہیں جو مادری زبان اور مقامی ثقافتوں کے تحفظ کی اہمیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسلام کبھی بھی مقامی ثقافتوں اور زبانوں کو کچلنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں علماء اسلام میں مادری زبان کی اہمیت کے بارے میں کبھی بات نہیں کرتے۔
اس مضمون میں آپ کو مقامی ثقافتوں اور زبانوں کی اہمیت کے بارے میں قرآن اور احادیث کے حوالے ملیں گے۔
To read this article in English , please visit ” Mother Language in Islam “
Bismillahir Rahmanir Raheem
Toggleقرآن کے مطابق مادری زبان نسل انسانی کی تربیت کا ذریعہ ہے
قرآن کریم کی بیشتر آیات اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ مادری زبان ہی کسی قوم کو تعلیم دینے کا بہترین ذریعہ ہے۔ قرآن کی سورہ ہم سجدہ کی درج ذیل آیت اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ تمام آسمانی کتابیں ان قوموں کی مادری زبانوں میں نازل ہوئی ہیں جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول بھیجے تھے۔
سُوۡرَةُ حٰمٓ السجدة / فُصّلَت : وَلَوۡ جَعَلۡنَـٰهُ قُرۡءَانًا أَعۡجَمِيًّ۬ا لَّقَالُواْ لَوۡلَا فُصِّلَتۡ ءَايَـٰتُهُ ۥۤۖ ءَا۠عۡجَمِىٌّ۬ وَعَرَبِىٌّ۬ۗ قُلۡ هُوَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ هُدً۬ى وَشِفَآءٌ۬ۖ وَٱلَّذِينَ لَا يُؤۡمِنُونَ فِىٓ ءَاذَانِهِمۡ وَقۡرٌ۬ وَهُوَ عَلَيۡهِمۡ عَمًىۚ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ يُنَادَوۡنَ مِن مَّكَانِۭ بَعِيدٍ۬ (41:44)
سُوۡرَةُ حٰمٓ السجدة / فُصّلَت : اور اگر ہم اس قرآن کو غیر زبان عرب میں (نازل) کرتے تو یہ لوگ کہتے کہ اس کی آیتیں (ہماری زبان میں) کیوں کھول کر بیان نہیں کی گئیں۔ کیا (خوب کہ قرآن تو) عجمی اور (مخاطب) عربی۔ کہہ دو کہ جو ایمان لاتے ہیں ان کے لئے (یہ) ہدایت اور شفا ہے۔ اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں گرانی (یعنی بہراپن) ہے اور یہ ان کے حق میں (موجب) نابینائی ہے۔ گرانی کے سبب ان کو (گویا) دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے
قران پاک کے یہ الفاظ کافی غور طلب ہیں: “کیا (خوب کہ قرآن تو) عجمی اور (مخاطب) عربی۔” یہ مادری زبان میں انسانی تربیت کی اہمیت کا واضح ثبوت ہے
یہ آیت بتا رہی ہے کہ لوگوں کو تعلیم دینے اور انہیں صحیح سمت میں ڈالنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قوموں کی مادری زبانوں کا انتخاب کیا۔ مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مادری زبان کی اہمیت کی توثیق کی ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہمیں واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ قرآن عربی ہے کیونکہ یہ عرب پر نازل ہوا ہے۔ تربیت کا ذریعہ عربی لوگوں کے لیے عربی اور غیر عربی لوگوں کے لیے غیر عربی ہونا چاہیے
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مقامی زبان بولنے والے نبی بھیجے۔
قرآن پاک میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تمام انبیاء کو اپنی اپنی قوم کی طرف بھیجا،اور تمام انبیاء نے اپنی قوم کے ساتھ رابطے کا ذریعہ کے طور پر وہی کی مقامی زبان استعمال کی۔
سُوۡرَةُ إبراهیم : وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوۡمِهٖ لِيُبَيِّنَ لَهُمۡؕ فَيُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَهُوَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ (4)
سُوۡرَةُ إبراهیم : اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان بولتا تھا تاکہ انہیں (احکام خدا) کھول کھول کر بتا دے۔ پھر خدا جسے چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے(14:4)
And We sent not a Messenger except with the language of his people, in order that he might make (the Message) clear for them. Then Allâh misleads whom He wills and guides whom He wills. And He is the All-Mighty, the All-Wise. (14 : 4)
زبانیں اور ثقافتیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔
قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ مختلف زبانیں اور نسلیں اللہ پاک کی نشانیوں میں سے ہیں
سُوۡرَةُ الرُّوم : وَمِنۡ ءَايَـٰتِهِۦ خَلۡقُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ وَٱخۡتِلَـٰفُ أَلۡسِنَتِڪُمۡ وَأَلۡوَٲنِكُمۡۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ۬ لِّلۡعَـٰلِمِينَ (22)
سُوۡرَةُ الرُّوم : اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگتوں کا مختلف ہونا ہے بے شک اس میں علم والوں کے لیے نشانیاں ہیں (۲۲)
یہ تمام زبانیں اور ثقافتیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عطا کردہ شناخت ہیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پیدا کردہ نشانیوں کو کوئی کس بنیاد پر ختم کر سکتا ہے.
زبانیں اور ثقافتیں اللہ سبحانہ کی عطا کردہ پہچان ہیں۔
قرآن مجید میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ زبانیں اور ثقافتیں اللہ سبحانہ کی عطا کردہ پہچان ہیں۔ یہ اللہ پاک کا عطا کردہ تعارف ہیں.
سُوۡرَةُ الحُجرَات : يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقۡنَـٰكُم مِّن ذَكَرٍ۬ وَأُنثَىٰ وَجَعَلۡنَـٰكُمۡ شُعُوبً۬ا وَقَبَآٮِٕلَ لِتَعَارَفُوٓاْۚ إِنَّ أَڪۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّهِ أَتۡقَٮٰكُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ۬ (١٣)
سُوۡرَةُ الحُجرَات : لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔ اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔ بےشک خدا سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے (49:13)
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ ہمیں اپنی ثقافتی اور لسانی شناخت کو برقرار رکھنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اپنی اس شناخت کو مٹا نہ دیں جو اللہ سبحان وتعالیٰ کا تحفہ ہے۔ اس لیے اپنے بچوں کو اپنی زبان سکھائیں، جیسے پنجابی، پشتو، سندھی بلوچی، کشمیری اور سرائیکی۔ اپنی شناخت، اپنی مادری زبان اور ثقافت سے پیار کریں۔ یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا تحفہ ہے۔ اور یہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی نشانیوں میں سے وہ اہم نشانی جسکا ذکر قران اور احادیث میں کئی مقاما ت پر ملتا ہے.
یہاں یہ بات بھی واضح ہے برتری کی بنیاد زبان اور نسل نہیں بلکہ اسکی بنیاد صرف تقوی ہے . اس بات سے کوئ انکار نہیں . لیکن افسوس اس بات کا ہے ، کہ پاکستان میں اگر کوئ ان قرانی تعلیمات کا حوالہ دیکر صرف اپنی زبان اور ثقافت کے تحفظ کی بات کرتا ہے تو اس پر نام نہاد علماء کرام تعصب کا الزام لگا دیتے ہیں . دوسری جانب یہ علماء کرام اردو زبان کو اسلام کی زبان ثابت کرتے ہیں اور تمام مادری زبانوں کے تحفظ کی آواز کو نسل پرستی قرار دیتے ہیں . میرا سوال ان مُلّوں سے صرف یہ ہےکہ صحاح ستہ اور کسی بھی حدیث کی کتاب میں کہاں اردو کو اسلام کی زبان کہا گیا ہے . لگتا ہے کہ کل جب امام مہدی اور نبی سیدنا عیسیٰ علیہ سلام نے اگر اردو یا عربی کے سوا کوئ اور زبان بولی تو انکے خلاف بھی فتاوی تیار ہوں جائیں گے. ویسے حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی زبان نہ تو اردو ہے اور نہ عربی بلكه انكي زبان سرياني ہے
اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو 12 قبیلوں کی الگ الگ شناخت کو برقرار رکھنے کا حکم دیا
قرآن پاک ہمیں بتاتا ہے کہ اللہ پاک نے بنی اسرائیل کے 12 قبیلوں کے لیے ایک پتھر سے پانی کی 12 نہریں بہانا شروع کیں۔
سُوۡرَةُ البَقَرَة : وَإِذِ ٱسۡتَسۡقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوۡمِهِۦ فَقُلۡنَا ٱضۡرِب بِّعَصَاكَ ٱلۡحَجَرَۖ فَٱنفَجَرَتۡ مِنۡهُ ٱثۡنَتَا عَشۡرَةَ عَيۡنً۬اۖ قَدۡ عَلِمَ ڪُلُّ أُنَاسٍ۬ مَّشۡرَبَهُمۡۖ ڪُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ مِن رِّزۡقِ ٱللَّهِ وَلَا تَعۡثَوۡاْ فِى ٱلۡأَرۡضِ مُفۡسِدِينَ (60)
سُوۡرَةُ البَقَرَة : اور جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے (خدا سے) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو۔ (انہوں نے لاٹھی ماری) تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، اور تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر (کے پانی پی) لیا۔ (ہم نے حکم دیا کہ) خدا کی (عطا فرمائی ہوئی) روزی کھاؤ اور پیو، مگر زمین میں فساد نہ کرتے پھرنا(60)
بنی اسرائیل کے مختلف ثقافتی شناختوں کے ساتھ 12 قبائل تھے۔ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ حکم نہیں دیا کہ وہ ان کو یکجا کریں اور ان کی مختلف ثقافتی شناختوں کو ختم کریں۔ اس کے برعکس اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو احکامات بھیجے جس سے ان کی شناخت کی حفاظت صاف ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، اللہ پاک نے سمندر میں 12 راستے کھولے، 12 قبیلوں میں سے ہر ایک کے لیے ایک راستہ۔ اسی طرح اللہ پاک نے پتھر سے پانی کی 12 نہریں نکالیں۔ اللہ پاک نے یہ نہیں کہا کہ ان کی شناخت کو کچل کر ایک بڑے قبیلے کی طرح اکٹھا کرو۔
پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نسلی شناختوں کی حفاظت فرمائی
درج ذیل حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مختلف قبائل کے اپنے اپنے قبیلے کے الگ الگ جھنڈے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں ثقافتی شناخت محفوظ تھی۔
.
مسند احمد: : عبداللہ بن عباس کی مرویات: حدیث نمبر: 3306
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ عُثْمَانَ الْجَزَرِيِّ عَنْ مِقْسَمٍ قَالَ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَايَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَرَايَةَ الْأَنْصَارِ مَعَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ وَكَانَ إِذَا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَكُونَ تَحْتَ رَايَةِ الْأَنْصَارِ
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی پاک (صلي الله عليه وآله وبارك وسلم) کا جھنڈا مہاجرین کی طرف سے حضرت علی ؓ کے پاس ہوتا تھا اور انصار کی طرف سے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کے پاس اور جب جنگ زوروں پر ہوتی تو نبی پاک (صلي الله عليه وآله وبارك وسلم) انصار کے جھنڈے کے نیچے ہوتے تھے
پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم عربوں کی ثقافت کا خیال رکھتے ہوئے
درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح عربی ثقافت کو اپنانے کا خیال رکھا۔ درج ذیل حدیث میں ہے کہ ایک شخص جہاد میں فارسی کمان کا استعمال کر رہا تھا اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وعلیکم السلام) نے اسے فارسی کمان کے بجائے عربی کمان استعمال کرنے کو کہا
مسند احمد: : عبداللہ بن عباس کی مرویات: حدیث نمبر: 3306
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ عُثْمَانَ الْجَزَرِيِّ عَنْ مِقْسَمٍ قَالَ لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَايَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ وَرَايَةَ الْأَنْصَارِ مَعَ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ وَكَانَ إِذَا اسْتَحَرَّ الْقَتْلُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا يَكُونَ تَحْتَ رَايَةِ الْأَنْصَارِ
علی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلي الله عليه وآله وبارك وسلم) کے مبارک ہاتھوں میں ایک عربی کمان تھی، اور ایک شخص کے ہاتھ میں آپ(صلي الله عليه وآله وبارك وسلم) نے فارسی کمان دیکھی تو فرمایا: یہ کیا ہے؟ اسے پھینک دو، اور اس طرح کی رکھو، اور نیزے رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے ان دونوں کے ذریعہ سے دین کو ترقی دے گا، اور تمہیں دوسرے ملکوں کو فتح کرنے پر قادر بنا دے گا ۔ تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ١٠٣٢٦، ومصباح الزجاجة: ٩٩٥)
اللہ تعالیٰ نے عرب میں قرآن کو نہ صرف مقامی عربی زبان میں بلکہ موجودہ عرب قبائل کے 7 لہجوں کے ساتھ بھیجا
مشکوٰۃ المصابیح : کتاب: علم کا بیان باب: علم اور اس کی فضیلت کا بیان حدیث نمبر: 227
وَعِنْ ابْنِ مَسْعُوْدِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ اُنْزِلَ الْقُرْاٰنُ عَلَی سَبْعَۃِ اُحْرُفِ لِکُلِّ اٰیَۃِ مِّنْھَا ظَھْرٌوَّ بَطْنٌ وَلِکُلِّ حَدِ مُطَّلَعٌ۔ (رواہ فی شرح النسۃ)
ترجمہ: اور حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم نبی پاک (صلي الله عليه وآله وبارك وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ قرآن کریم سات طرح پر نازل کیا گیا ہے ان میں سے ہر آیت ظاہر ہے اور باطن ہے اور ہر حد کے واسطے ایک جگہ خبردار ہونے کی ہے۔ (شرح السنۃ)
تشریح : دنیا کی ہر زبان میں فصاحت و بلاغت اور لب و لہجہ کے اعتبار سے مختلف اسلوب اور مختلف لغات ہوتی ہیں۔ اسی طرح عربی زبان میں بھی سات لغات عرب میں مشہور تھیں، اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ قرآن کریم سات طرح یعنی سات لغات پر نازل ہوا ہے۔ اس سات لغات کی تفصیل اس طرح ہے۔ لغت قریش لغت طی، لغت ہوازن، لغت اہل یمن، لغت ثقیف، لغت ہذیل اور لغت بنی تمیم۔ قرآن کریم سب سے پہلے قریش کی لغت کے مطابق نازل ہوا تھا جو سرکار دو عالم ﷺ کی لغت تھی لیکن جب تمام عرب میں اس لغت کے مطابق قرآن کا پڑھنا جانا اس لئے دشوار و مشکل ہوا کہ ہر قبیلہ اور ہر قوم کی اپنی ایک مستقل لغت اور زبان کے لب و لہجہ کا الگ الگ انداز تھا تو سرکا دو عالم نبی پاک (صلي الله عليه وآله وبارك وسلم) نے بارگاہ الوہیت میں درخواست پیش کی کہ اس سلسلہ میں وسعت بخشی جائے تو حکم دے دیا گیا کہ ہر آدمی قرآن کو اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکتا ہے
عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان میں اکثر علماء اردو کو اسلام کی زبان سمجھتے ہیں جو کسی بھی اسلامی حوالہ جات میں نہیں لکھی گئی ہے۔