First Appearance of Dajjal
Bismillahir Rahmanir Raheem
ToggleThe location of the
first appearance of the Dajjal
The main ḥadīth showing the afflictions from the Tribe of Banu Tamim.
حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي سعيد قال بينا النبي صلی الله عليه وسلم يقسم جائ عبد الله بن ذي الخويصرة التميمي فقال اعدل يا رسول الله فقال ويلک ومن يعدل إذا لم أعدل قال عمر بن الخطاب دعني أضرب عنقه قال دعه فإن له أصحابا يحقر أحدکم صلاته مع صلاته وصيامه مع صيامه يمرقون من الدين کما يمرق السهم من الرمية ينظر في قذذه فلا يوجد فيه شيئ ثم ينظر في نصله فلا يوجد فيه شيئ ثم ينظر في رصافه فلا يوجد فيه شيئ ثم ينظر في نضيه فلا يوجد فيه شيئ قد سبق الفرث والدم آيتهم رجل إحدی يديه أو قال ثدييه مثل ثدي المرأة أو قال مثل البضعة تدردر يخرجون علی حين فرقة من الناس قال أبو سعيد أشهد سمعت من النبي صلی الله عليه وسلم وأشهد أن عليا قتلهم وأنا معه جيئ بالرجل علی النعت الذي نعته النبي صلی الله عليه وسلم قال فنزلت فيه ومنهم من يلمزک في الصدقات. صحیح بخاری
عبداللہ بن محمد، ہشام، معمر، زہری، ابوسلمہ، ابوسعید سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے۔ کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عدل سے کام لیجئے، آپ نے فرمایا کہ تیری خرابی ہو جب میں عدل نہ کرو تو اور کون عدل کرے گا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن خطاب نے عرض کیا مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑادوں آپ نے فرمایا کہ اس کو چھوڑ دو اس کے ایسے ساتھی ہیں کہ تم میں سے ایک شخص ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نماز کو حقیر سمجھتا ہے، اور اپنے روزے کو ان کے روزے کے مقابلے میں حقیر سمجھتا ہے۔ وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اس کے پروں میں دیکھا جائے تو کچھ معلوم نہیں ہوتا، پھر اس کے پھل میں دیکھا جائے تو معلوم نہیں ہوتا، حالانکہ وہ خون اور گوبر سے ہو کر گزرا ہے ان کی نشانی یہ ہوگی کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہوگا جس کا ایک ہاتھ یا ایک چھاتی عورت کی ایک چھاتی کی طرح ہوگی، یا فرمایا کہ گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہوگی، اور ہلتی ہوگی، لوگوں کے تفرقہ کے وقت نکلیں گے، ابوسعید کا بیان ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی نے لوگوں کو قتل کیا میں ان کے پاس تھا، اس وقت ایک شخص اسی صورت کا لایا گیا جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا، ابوسعد کا بیان ہے کہ آیت، وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ 9۔ التوبہ : 58) ، اسی شخص کے بارے میں نازل ہوئی۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1839 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 24 متفق علیہ 17
حدیثمتواترحدیثمرفوع مکررات 24 متفقعلیہ 17
Narrated Abu Saeed y: While the Prophet r was distributing something, ‘Abdullah bin Dhil Khawaisira At-Tamimi came and said: “Be just, O Allah’s Apostle!” The Prophet r said: “Woe to you! Who would be just if I were not?” ‘Umar y bin Al-Khattab said: “Allow me to cut off his neck!”. The Prophet said: “Leave him, for he has companions, and if you compare your prayers with their prayers and your fasting with theirs, you will look down upon your prayers and fasting, in comparison to theirs. Yet they will go out of the religion as an arrow darts through the game’s body in which case, if the Qudhadh of the arrow is examined, nothing will be found on it, and when it is Nasl is examined, nothing will be found on it; and then it is Nadiyi is examined, nothing will be found on it. The arrow has been too fast to be smeared by dung and blood. The sign by which these people will be recognized will be a man whose one hand (or breast) will be like the breast of a woman (or like a moving piece of flesh). These people will appear when there will be differences among the people (Muslims)”. Abu Saeed added: “I testify that I heard this from the Prophet, and also testify that Ali y killed those people while I was with him. The man with the description given by the Prophet r was brought to Ali y. The following verses were revealed in connection with that very person (i.e.: Abdullah bin Dhil-Khawaisira At-Tamimi): ‘and among them are men who accuse you (O Muḥammad) in the matter of (the distribution of) the alms.’ (9.58). [1]
The following verses describes the above incident
سُوۡرَةُ التّوبَة وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ [٩:٥٨]
اور ان میں سے بعض اسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر ان کو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جائیں
﴿٥٨﴾
‘And among them are men who accuse you (O Muḥammad) in the matter of (the distribution of) the alms.’ (9.58)[2]
The 2nd ḥadīth tells us that the family of
Zul-Khuwaisara Al Tamimi will start afflictions.
Following ḥadīth are also tells of the same event mentioned before in the ḥadīth, and tells us that the afflictions will start from the offspring of Zul-Khuwaisara of Banu Tamim, and it is location is the Najd.
حدثنا قبيصة حدثنا سفيان عن أبيه عن ابن أبي نعم أو أبي نعم شک قبيصة عن أبي سعيد الخدري قال بعث إلی النبي صلی الله عليه وسلم بذهيبة فقسمها بين أربعة و حدثني إسحاق بن نصر حدثنا عبد الرزاق أخبرنا سفيان عن أبيه عن ابن أبي نعم عن أبي سعيد الخدري قال بعث علي وهو باليمن إلی النبي صلی الله عليه وسلم بذهيبة في تربتها فقسمها بين الأقرع بن حابس الحنظلي ثم أحد بني مجاشع وبين عيينة بن بدر الفزاري وبين علقمة بن علاثة العامري ثم أحد بني کلاب وبين زيد الخيل الطائي ثم أحد بني نبهان فتغيظت قريش والأنصار فقالوا يعطيه صناديد أهل نجد ويدعنا قال إنما أتألفهم فأقبل رجل غائر العينين ناتئ الجبين کث اللحية مشرف الوجنتين محلوق الرأس فقال يا محمد اتق الله فقال النبي صلی الله عليه وسلم فمن يطيع الله إذا عصيته فيأمنني علی أهل الأرض ولا تأمنوني فسأل رجل من القوم قتله أراه خالد بن الوليد فمنعه النبي صلی الله عليه وسلم فلما ولی قال النبي صلی الله عليه وسلم إن من ضئضئ هذا قوما يقرئون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان لئن أدرکتهم لأقتلنهم قتل عاد. صحیح بخاری
قبیصہ، سفیان، سفیان کے والد، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھوڑا سا سونا بھیجا گیا تو آپ نے اس کو چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا (دوسری سند) اسحاق بن نصر عبدالرزاق، سفیان اپنے والد سے وہ ابن نعم سے وہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کچھ سونا بھیجا تو آپ نے اس کو اقرع بن حابس کو جو حنظلی اور بن مجاشع کا ایک فرد تھا عینیہ بن بدر قراری اور علقمہ بن علاثہ جو عامری بنی کلاب کا ایک شخص تھا اور زید خیل کو جو طائی اور بنی نبہانکا ایک فرد تھا، تقسیم کر دیا، قریش اور انصار غصہ ہوئے اور کہنے لگے کہ اہل نجد کے سرداروں کو دیتے ہیں اور ہم لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں ان کی تالیف قلوب کرتا ہوں۔ ایک شخص آیا کہ اس کی دونوں آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی دونوں گال اٹھے ہوئے اور سر منڈائے ہوئے تھا اس نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ سے ڈر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی اطاعت کون کرے گا جب کہ میں ہی اس کی نافرمانی کروں، اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھ کو امین نہیں سمجھتے ہو۔ قوم کے ایک شخص غالبا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کے قتل کرنے کی اجازت چاہی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا جب وہ شخص پیٹھ پھیر کر چلا گیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نسل سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے اور قرآن انکی حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ لوگ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستی کو چھوڑ دیں گے، اگر میں ان کا زمانہ پالوں تو ان لوگوں کو قوم عاد کی طرح قتل کر دوں۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2300 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 24 متفق علیہ 17
Narrated Abu Said Al Khudri y: When Ali y was in Yemen, he sent some gold in it is ore to the Prophet. Our Dear Prophet distributed it among Al-Aqra’ bin Habis Al-Hanzali who belonged to Banu Mujashi, ‘Uyaina bin Badr Al-Fazari, ‘Alqamah bin ‘Ulathah Al-’Amiri, who belonged to the Banu Kilab tribe and Zaid AI-Khail At-Ta’i who belonged to Banu Nabhan. So the Quraish and the Ansar became angry and said: “He gives to the chiefs of Najd and leaves us!” The Prophet said: “I just wanted to attract and unite their hearts (make them firm in Islam)”. Then there came a man with sunken eyes, bulging forehead, thick beard, fat raised cheeks, and clean-shaven head, and said: “O Muḥammad! Be afraid of Allah! “The Prophet r said: “Who would obey Allah if I disobeyed Him? (Allah). He trusts me over the people of the earth, but you do not trust me?” A man from the people (present then), who, I think, was Khalid bin Al-Walid y, asked for permission to kill him, but the Prophet prevented him. When the man went away, the Prophet said: “Out of the offspring of this man, there will be people who will recite the Qur’an but it will not go beyond their throats, and they will go out of Islam as an arrow goes out through the game, and they will kill the Muslims and leave the idolaters. Should I live till they appear, I would kill them as the Killing of the nation of ‘Ad”.[3]
The 3rd ḥadīth telling us that family of Zul-Khuwaisara Al Tamimi will start afflictions.
حدثنا عبد الرزاق أخبرنا سفيان عن أبيه عن ابن أبي نعم عن أبي سعيد الخدري قال بعث علي إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو باليمن بذهيبة في تربتها فقسمها بين الأقرع بن حابس الحنظلي ثم أحد بني مجاشع وبين عيينة بن بدر الفزاري وبين علقمة بن علاثة العامري ثم أحد بني كلاب وبين زيد الخير الطاي ثم أحد بني نبهان قال فغضبت قريش والأنصار قالوا يعطي صناديد أهل نجد ويدعنا قال إنما أتألفهم قال فأقبل رجل غار العينين نات الجبين كث اللحية مشرف الوجنتين محلوق قال فقال يا محمد اتق الله قال فمن يطيع الله إذا عصيته يأمنني على أهل الأرض ولا تأمنوني قال فسأل رجل من القوم قتله النبي صلى الله عليه وسلم أراه خالد بن الوليد فمنعه فلما ولى قال إن من ضض هذا قوم يقرون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان لن أنا أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد۔ مسند احمد:
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے سونے کا ایک ٹکڑا دباغت دی ہوئی کھال میں لپیٹ کر “ جس کی مٹی خراب نہ ہوئی تھی” نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زید الخیر، اقرع بن حابس، عینیہ بن حصن اور علقمہ بن علاثہ یا عامر بن طفیل چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور انصار وغیرہ کو اس پر کچھ بوجھ محسوس ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ میں تو آسمان والے کا امین ہوں ، میرے پاس صبح شام آسمانی خبریں آتی ہیں ، اتنی دیر میں گہری آنکھوں ، سرخ رخساروں ، کشادہ پیشانی، گھنی ڈاڑھی، تہبند خوب اوپر کیا ہوا اور سر منڈایا ہوا ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! خدا کا خوف کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سر اٹھا کر دیکھا اور فرمایا بدنصیب! کیا اہل زمین میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے کا حقدار میں ہی نہیں ہوں ۔ پھر وہ آدمی پیٹھ پھیر کر چلا گیا، حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہنے لگے، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن مار دوں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوسکتا ہے کہ یہ نماز پڑھتا ہو، انہوں نے عرض کیا کہ بہت سے نمازی ایسے بھی ہیں جو اپنی زبان سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں سوراخ کرتا پھروں یا ان کے پیٹ چاک کرتا پھروں ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک نظر دیکھا جو پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا اور فرمایا یاد رکھو! اسی شخص کی نسل میں ایک ایسی قوم آئے گی جو قرآن تو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے، اگر میں نے انہیں پالیا تو قوم عاد کی طرح قتل کروں گا۔ مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 710 حدیث متواتر حدیث مرفوع
When Ali y was in Yemen, he sent some gold in it is ore to the Prophet. The Prophet distributed it among Al-Aqra’ bin Habis Al-Hanzali who belonged to Banu Mujashi, ‘Uyaina bin Badr Al-Fazari, ‘Alqamah bin ‘Ulathah Al-’Amiri, who belonged to the Banu Kilab tribe and Zaid AI-Khail At-Ta’i who belonged to Banu Nabhan. So the Quraish and the Ansar became angry and said: “He gives to the chiefs of Najd and leaves us!” The Prophet said: “I just wanted to attract and unite their hearts (make them firm in Islam)”. Then there came a man with sunken eyes, bulging forehead, thick beard, fat raised cheeks, and clean-shaven head, and said: “O Muḥammad! Be afraid of Allah! “The Prophet said: “Who would obey Allah if I disobeyed Him? (Allah). He trusts me over the people of the earth, but you do not trust me?” A man from the people (present then), who, I think, was Khalid bin Al-Walid y, asked for permission to kill him, but the Prophet prevented him. When the man went away, the Prophet said: “Out of the offspring of this man, there will be people who will recite the Qur’an but it will not go beyond their throats, and they will go out of Islam as an arrow goes out through the game, and they will kill the Muslims and leave the idolaters. Should I live till they appear, I would kill them as the Killing of the nation of ‘Ad”. [4]
The 4th ḥadīth telling us that the group of Zul-Khuwaisara Al Tamimi will start afflictions.
حدثنا يعقوب حدثنا أبي عن ابن إسحاق حدثني أبو عبيدة بن محمد بن عمار بن ياسر عن مقسم أبي القاسم مولى عبد الله بن الحارث بن نوفل قال خرجت أنا وتليد بن كلاب الليثي حتى أتينا عبد الله بن عمرو بن العاص وهو يطوف بالبيت معلقا نعليه بيده فقلنا له هل حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم حين يكلمه التميمي يوم حنين قال نعم أقبل رجل من بني تميم يقال له ذو الخويصرة فوقف على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يعطي الناس قال يا محمد قد رأيت ما صنعت في هذا اليوم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أجل فكيف رأيت قال لم أرك عدلت قال فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال ويحك إن لم يكن العدل عندي فعند من يكون فقال عمر بن الخطاب يا رسول الله ألا نقتله قال لا دعوه فإنه سيكون له شيعة يتعمقون في الدين حتى يخرجوا منه كما يخرج السهم من الرمية ينظر في النصل فلا يوجد شي ثم في القدح فلا يوجد شي ثم في الفوق فلا يوجد شي سبق الفرث والدم قال أبو عبد الرحمن أبو عبيدة هذا اسمه محمد ثقة وأخوه سلمة بن محمد بن عمار لم يرو عنه إلا علي بن زيد ولا نعلم خبره ومقسم ليس به بأس ولهذا الحديث طرق في هذا المعنى وطرق أخر في هذا المعنى صحاح والله سبحانه وتعالى أعلم. مسند احمد
مقسم کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ تلید بن کلاب لیثی کے ساتھ نکلاہم لوگ حضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے وہ اس وقت ہاتھوں میں جوتے لٹکائے بیت اللہ کا طواف کررہے تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ غزوہ حنین کے موقع پر جس وقت بنوتمیم کے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تھی کیا آپ وہاں موجود تھے ؟ انہوں نے فرمایا ہاں بنوتمیم کا ایک آدمی جسے ذوالخولصیرہ کہا جاتا ہے آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہو گیا اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے وہ کہنے لگا کہ اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آج میں نے آپ کو مال غنیمت تقسیم کرتے ہوئے دیکھ لیاہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا تمہیں کیسا لگا؟ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو عدل سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھا یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور فرمایا تجھ پر افسوس! اگر میرے پاس ہی عدل نہ ہوگا تو اور کس کے پاس ہو گا؟
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم اسے قتل نہ کردیں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اسے چھوڑ دوعنقریب اس کے گروہ کے کچھ لوگ ہوں گے جوتعمق فی الدین کی راہ اختیار کریں گے، وہ لوگ دین سے سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے تیر کے پھل کو دیکھا جائے تو اس پر کچھ نظر نہ آئے دستے پر دیکھاجائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے اور سوار پر دیکھا جائے تو وہاں کچھ نظر نہ آئے بلکہ وہ تیر لید اور خون پر سبقت لے جائے۔ مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 2526
The 5th ḥadīth tells us that location Zul-Khuwaisara Al Tamimi is Najd.
ہناد بن سری، ابواحوص، سعید بن مسروق، عبدالرحمن بن ابونعم، ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سونے کا ایک ٹکڑا بھیجا جو کہ مٹی میں شامل ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو چار آدمیوں کے درمیان تقسیم فرمایا وہ چار آدمی یہ ہیں (1) حضرت اقرع بن حابس (2) عینیہ بن بدر (3) علقمہ بن علاثہ عامری۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ بنی کلاب کے ایک شخص کو دیا پھر حضرت زید طان کو اور پھر قبیلہ بنی نبیان کے آدمی کو اس پر قریش ناراض ہوگئے اور ان کو غصہ آگیا اور کہنے لگے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگ نجد کے سرداران کو تو (صدقہ) دیتے ہیں اور ہم لوگوں کو نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں نے اس واسطے ان کو دیا ہے کہ یہ لوگ تازہ تازہ مسلمان ہوئے ہیں اس لئے ان کے قلوب کو اسلام کی جانب متوجہ کرنے کے واسطے میں نے یہ کیا۔ اسی دوران ایک آدمی حاضر ہوا جس کی ڈاڑھی گھنی اور اس کے رخسار ابھرے ہوئے تھے اور اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں اور اس کی پیشانی بلند اور اس کا سر گھٹا ہوا تھا اور عرض کرنے لگا۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم خدا سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر میں بھی خداوند قدوس کی نافرمانی کرنے لگ جاؤں تو وہ کون شخص ہے جو کہ خداوندقدوس کی فرماں برداری کرے گا اور کیا وہ میرے اوپر امین مقرر کرتا ہے اور تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قابل بھروسہ خیال نہیں کرتے پھر وہ آدمی رخصت ہوگیا اور ایک شخص نے اس کو مار ڈالنے کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت مانگی۔ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ حضرت خالد بن ولید تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کی نسل سے اس طرح کے لوگ پیدا ہوں گے جو کہ قرآن کریم پڑھیں گے لیکن قرآن کریم ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا (یعنی قرآن کریم کا ان پر ادنی ٰ سااثرنہہوگا)
وہلوگدیناسلامسےاسطریقہسےنکلجائیںگےجسطریقہسےکہتیرکمانسےنکلجاتاہے۔ اگرانکومیںنےپالیاتومیںانکوقومعادکیطرحسےقتلکرڈالوںگا.سنننسائی:جلددوم:حدیثنمبر 489 حدیثمتواترحدیثمرفوعمکررات 24
It was narrated that Abu Saeed Al Khudri y said: “When he was in Yemen, Ali y sent a piece of gold that was still mixed with sediment to the Messenger of Allah r and the Messenger of Allah r distributed it among four people: Al-Aqra’ bin Habis Al-Hanzali, ‘Uyaynah bin Badr Al- Fazari, ‘Alqamah bin ‘Ulathah Al ‘Amiri, who was from Banu Kilab and Zaid At-Ta’i who was from Banu Nabhan. The Quraish” – he said one time “the chiefs of the Quraish” – “became angry and said: ‘You give to the chiefs of Najd and not to us?’ He said: ‘I only did that, so as to soften their hearts toward Islam.’ Then a man with a thick beard, prominent cheeks, sunken eyes, a high forehead, and a shaven head came and said: ‘Fear Allah, Muḥammad!’ He (Prophet Muḥammad r said: ‘Who would obey Allah if I disobeyed Him? (Is it fair that) He has entrusted me with all the people of the Earth but you do not trust me?’ Then the man went away, and a man from among the people, whom they (the narrators) think was Khalid bin Al Walid, asked for permission to kill him. The Messenger of Allah r said: ‘Among the offspring of this man will be some people who will recite the Qur’an but it will not go any further than their throats. They will kill the Muslims but leave the idol worshippers alone, and they will pass through Islam as an arrow passes through the body of the target. If I live to see them, I will kill them all, as the people of ‘Ad were killed”.[5]
The 6th ḥadīth telling us that the Dajjal will join the followers of Zul-Khuwaisara Al Tamimi of the east and will have shaved heads.
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَيُونُسُ , قَالَا : ثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنِ الْأَزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ ، أَنَّ شَرِيكَ بْنَ شِهَابٍ ، قَالَ يُونُسُ : الْحَارِثِيُّ وَهَذَا حَدِيثُ عَبْدِ الصَّمَدِ , قَالَ : لَيْتَ أَنِّي رَأَيْتُ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُنِي عَنْ الْخَوَارِجِ , قَالَ فَلَقِيتُ أَبَا بَرْزَةَ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ : حَدِّثْنِي شَيْئًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَوَارِجِ , قَالَ : أُحَدِّثُكُمْ بِشَيْءٍ قَدْ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ ، وَرَأَتْهُ عَيْنَايَ : أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَنَانِيرَ ، فَقَسَمَهَا ، وَثَمَّ رَجُلٌ مَطْمُومُ الشَّعْرِ ، آدَمُ أَوْ أَسْوَدُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ أَثَرُ السُّجُودِ ، عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ ، فَجَعَلَ يَأْتِيهِ مِنْ قِبَلِ يَمِينِهِ ، وَيَتَعَرَّضُ لَهُ ، فَلَمْ يُعْطِهِ شَيْئًا , قَالَ يَا مُحَمَّدُ ، مَا عَدَلْتَ الْيَوْمَ فِي الْقِسْمَةِ ، فَغَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا ، ثُمَّ قَالَ : “ وَاللَّهِ لَا تَجِدُونَ بَعْدِي أَحَدًا أَعْدَلَ عَلَيْكُمْ مِنِّي “ ثَلَاثَ مَرَّار ، ثُمَّ قَالَ : “ يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ ، كَانَ هَذَا مِنْهُمْ ، هَدْيُهُمْ هَكَذَا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ ، ثُمَّ لَا يَرْجِعُونَ فِيهِ ، سِيمَاهُمْ التَّحْلِيقُ ، لَا يَزَالُونَ يَخْرُجُونَ حَتَّى يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الدَّجَّالِ ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيقَةِ “ ,. مسند احمد
شریک بن شہاب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میری یہ خواہش تھی کہ نبی علیہ السلام کے کسی صحابی سے ملاقات ہو جائے اور وہ مجھ سے خوارج کے متعلق حدیث بیان کریں، چنانچہ یوم عرفہ کے موقع پر حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے ان کے چند ساتھیوں کے ساتھ میری ملاقات ہو گئی، میں نے ان سے عرض کیا اے ابوبرزہ! خوارج کے حوالے سے آپ نے نبی علیہ السلام کو اگر کچھ فرماتے ہوئے سنا ہو تو وہ حدیث ہمیں بھی بتائیے، انہوں نے فرمایا میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو میرے کانوں نے سنی اور میری آنکھوں نے دیکھی۔ ایک مرتبہ نبی علیہ السلام کے پاس کہیں سے کچھ دینار آئے ہوئے تھے، نبی علیہ السلام وہ تقسیم فرما رہے تھے، وہاں ایک سیاہ فام آدمی بھی تھا جس کے بال کٹے ہوئے تھے، اس نے دو سفید کپڑے پہن رکھے تھے، اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدے کے نشانات تھے، وہ نبی علیہ السلام کے سامنے آیا، نبی علیہ السلام نے اسے کچھ نہیں دیا، دائیں جانب سے آیا لیکن نبی علیہ السلام نے کچھ نہیں دیا، بائیں جانب سے اور پیچھے سے آیا تب بھی کچھ نہیں دیا، یہ دیکھ کر وہ کہنے لگا بخدا اے محمد! صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ جب سے تقسیم کر رہے ہیں، آپ نے انصاف نہیں کیا، اس پر نبی علیہ السلام کو شدید غصہ آیا، اور فرمایا بخدا! میرے بعد تم مجھ سے زیادہ عادل کسی کو نہ پاؤ گے، یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا پھر فرمایا کہ مشرق کی طرف سے کچھ لوگ نکلیں گے، غالبا یہ بھی ان ہی میں سے ہے، اور ان کی شکل وصورت بھی ایسی ہی ہوگی، وہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ اس کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے، یہ کہہ کر نبی علیہ السلام نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھا، ۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کردو۔ تین مرتبہ فرمایا. وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں. گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے. مسند احمد:جلد نہم:حدیث نمبر 44 حدیث متواتر حدیث مرفوع حدیثمتواترحدیثمرفوع
It was narrated that Sharik bin Shihab y said: “I used to wish that I could meet a man among the Companions of The Prophet and ask him about the Khawarij. Then I met Abu Barzah y on the day of Eid, with a number of his companions. I said to him: ‘Did you hear the Messenger of Allah r mention the Khawarij?’ He said: ‘Yes. I heard the Messenger of Allah r with my own ears, and saw him with my own eyes. Some wealth was brought to the Messenger of Allah r and he distributed it to those on his right and on his left, but he did not give anything to those who were behind him. Then a man stood behind him and said: “Muḥammad! You have not been just in your division!” He was a black man with patchy (shaved) hair, wearing two white garments and sign of prostration on the forehead. So Allah’s Messenger r became very angry and said: “By Allah! You will not find a man after me who is more just than me”. He r repeated these words three times. Then he said: “A people will come at the end of time from the east; as if he is one of them and their appearance will also be like this man. They will be reciting the Qur’an without it passing beyond their throats. They will go through Islam just as the arrow goes through the target. Their distinction will be shaving. They will not cease to appear until the last of them comes with Al-Masih Al the Dajjal. So when you meet them, then kill them, they are the worst of created beings”. [6]
It was narrated that Sharik bin Shihab y said: “I used to wish that I could meet a man among the Companions of The Prophet r and ask him about the Khawarij. Then I met Abu Barzah y on the day of Eid, with a number of his companions. I said to him: ‘Did you hear the Messenger of Allah r mention the Khawarij?’ He said: ‘Yes. I heard the Messenger of Allah r with my own ears, and saw him with my own eyes. Some wealth was brought to the Messenger of Allah r and he distributed it to those on his right and on his left, but he did not give anything to those who were behind him. Then a man stood behind him and said: “Muḥammad! You have not been just in your division!” He was a black man with patchy (shaved) hair, wearing two white garments and sign of prostration on the forehead. So Allah’s Messenger r became very angry and said: “By Allah! You will not find a man after me who is more just than me”. He r repeated these words three times. Then he said: “A people will come at the end of time from the east, as if he is one of them and their appearance will also be like this man. They will be reciting the Qur’an without it passing beyond their throats. They will go through Islam just as the arrow goes through the target. Their distinction will be shaving. They will not cease to appear until the last of them comes with Al-Masih Al the Dajjal. So when you meet them, then kill them, they are the worst of created beings”. [7]
The above ḥadīth is not just for the Khawarij[8] but for all times, since it is clearly told that such people will appear constantly till the end time and will join the Dajjal.
The following ḥadīth tells us about the same incident, and this further tells us that the Dajjal will come among the offspring of the Banu Tamim tribe from the Najd.
أخبرنا محمد بن معمر البصري الحراني قال حدثنا أبو داود الطيالسي قال حدثنا حماد بن سلمة عن الأزرق بن قيس عن شريک بن شهاب قال کنت أتمنی أن ألقی رجلا من أصحاب النبي صلی الله عليه وسلم أسأله عن الخوارج فلقيت أبا برزة في يوم عيد في نفر من أصحابه فقلت له هل سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يذکر الخوارج فقال نعم سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم بأذني ورأيته بعيني أتي رسول الله صلی الله عليه وسلم بمال فقسمه فأعطی من عن يمينه ومن عن شماله ولم يعط من وراه شيا فقام رجل من وراه فقال يا محمد ما عدلت في القسمة رجل أسود مطموم الشعر عليه ثوبان أبيضان فغضب رسول الله صلی الله عليه وسلم غضبا شديدا وقال والله لا تجدون بعدي رجلا هو أعدل مني ثم قال يخرج في آخر الزمان قوم کأن هذا منهم يقرون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام کما يمرق السهم من الرمية سيماهم التحليق لا يزالون يخرجون حتی يخرج آخرهم مع المسيح الدجال فإذا لقيتموهم فاقتلوهم هم شر الخلق والخليقة قال أبو عبد الرحمن رحمه الله شريک بن شهاب ليس بذلک المشهور. سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 407
محمد بن معمر بصری جرانی، ابوداؤد طیالسی، حماد بن سلمہ، الازرق بن قیس، شریک بن شہاب سے روایت ہے کہ مجھ کو تمنا تھی کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی صحابی سے ملاقات کروں۔ اتفاق سے میں نے عید کے دن حضرت ابوبرزہ اسلمی سے ملاقات کی اور ان کے چند احباب کے ساتھ ملاقات کی میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ خوارج کے متعلق سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا جی ہاں۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے کان سے سنا ہے اور میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کچھ مال آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ مال ان حضرات کو تقسیم فرما دیا جو کہ دائیں جانب اور بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے اور جو لوگ پیچھے کی طرف بیٹھے تھے ان کو کچھ عطاء نہیں فرمایا چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال انصاف سے تقسیم نہیں فرمایا وہ ایک سانولے (یعنی گندمی) رنگ کا شخص تھا کہ جس کا سر منڈا ہوا تھا اور وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا یہ بات سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت سخت ناراض ہو گئے اور فرمایا خدا کی قسم! تم لوگ میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی دوسرے کو (اس طریقہ سے) انصاف سے کام لیتے ہوئے نہیں دیکھو گے۔ پھر فرمایا آخر دور میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ آدمی بھی ان میں سے ہے کہ وہ لوگ قرآن کریم کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن کریم ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ لوگ دائرہ اسلام سے اس طریقہ سے خارج ہوں گے کہ جس طریقہ سے تیر شکار سے فارغ ہو جاتا ہے ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ لوگ سر منڈے ہوئے ہوں گے ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کے پیچھے لوگ دجال ملعون کے ساتھ نکلیں گے۔ جس وقت ان لوگوں سے ملاقات کرو تو ان کو قتل کر ڈالو۔ وہ لوگ بدترین لوگ ہیں اور تمام مخلوقات سے برے انسان ہیں۔ سنن نسائی:جلد سوم:حدیث نمبر 407 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 10
It was narrated that Sharik bin Shihab y said: “I used to wish that I could meet a man among the Companions of The Prophet and ask him about the Khawarij. Then I met Abu Barzah y on the day of Eid, with a number of his companions. I said to him: ‘Did you hear the Messenger of Allah r صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم mention the Khawarij?’ He said: ‘Yes. I heard the Messenger of Allah r صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم with my own ears, and saw him with my own eyes. Some wealth was brought to the Messenger of Allah r صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم and he distributed it to those on his right and on his left, but he did not give anything to those who were behind him. Then a man stood behind him and said: “Muḥammad! You have not been just in your division!” He was a man with black patchy (shaved) hair, wearing two white garments. So Allah’s Messenger r صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم, became very angry and said: “By Allah! You will not find a man after me who is more just than me”. Then he said: “A people will come at the end of time; as if he is one of them, reciting the Qur’an without it passing beyond their throats. They will go through Islam just as the arrow goes through the target. Their distinction will be shaving. They will not cease to appear until the last of them comes with Al-Masih Al the Dajjal. So when you meet them, then kill them, they are the worst of created beings”.[9]
We see that in the above ḥadīth the same person Zul-Khuwaisara of Banu Tamim is mentioned in the same incident. So it proves that the Dajjal will join the Banu Tamim from the Najd.
_
Analysis of the ḥadīth about Zul Khuwaisara
of Banu Tamim tribe of the Najad
Most of the ḥadīth about the followers of the Dajjal from the Najd are related to the incident to a person named Zul-Khuwaisara from the Banu Tamim tribe who behaved foolishly in front of our Dear Prophet Muḥammad r. In all these ḥadīth you will find that the Muslims are warned of an affliction that will have the following characteristics:
- It will appear from the offspring of Zul-Khuwaisara of the Banu Tamim tribe.
- It will appear from the Najd as Zul-Khuwaisara was also from the Najd.
- The people related to this affliction will read the Qur’an beautifully but hypocritically.
- The people related to this affliction will pass through Islam unaffected just like an arrow passes through the flesh.
- They will respect the non-Muslims but kill the Muslims.
- They will deny many ḥadīth.
- They will have shaved heads.
- They will have long beards.
- Their appearance will be just like pious Muslims.
- They will appear in all times.
- They will join the Dajjal in the End of Times.
- The Dajjal will be among these people.
Two common sentences in all these ḥadīth.
Most of the ḥadīth have two common sentences about these people:
- The people related to this affliction will read the Qur’an but it will not pass through their throats.
- They will pass through Islam (unaffected) just as an arrow passes through the prey’s body.
The Qur’an comments about Banu Tamim.
The following verse of Sūrah Hujurat of the Qur’an clearly tells us that Banu Tamim has no sense:
سُوۡرَةُالحُجرَات إِنَّ ٱلَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَآءِ ٱلۡحُجُرَٲتِ أَڪۡثَرُهُمۡ لَا يَعۡقِلُونَ (40:4)
جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں ان میں سے اکثروں کو عقل نہیں ہے ۔ (40:4)
Lo! Those who call thee from behind the private apartments, most of them have no sense. (40:4)
‘The “chambers” (Hujurat) were spaces enclosed by walls. Each of the wives of Allah’s Messenger r had one of them. The ayat was revealed in connection with the delegation of the Banu Tamim who came to the Prophet r. They entered the mosque, and approached the chambers of his wives. They stood outside them and called: “Muḥammad! Come out to us!” an action which expressed a good deal of harshness, crudeness and disrespect. Allah’s Messenger r waited a while, and then came out to them. One of them, known as al-Aqra’ibn Habis, said: “Muḥammad! My praise is an ornament, and my denunciation brings shame!”, and the Messenger r replied: “Woe betide you! That is the due of Allah”.’ (Imam Muḥammad ibn Ahmad ibn Juzayy, al-Tashil [Beirut, 1403], p.702. See also the other tafsir works; also Ibn Hazm, Jamharat Ansab al ‘Arab [Cairo, 1382], 208, in the chapter on Tamim.)
The following Verses were revealed in connection with that very person (i.e.: Abdullah bin Zul-Khuwaisara Al Tamimi): who was from Banu Tamim and who misbehaved with our Dear Prophet Muḥammad r.
سُوۡرَةُالتّوبَة وَمِنْهُم مَّن يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِن لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ [٩:٥٨] اور ان میں سے بعض اسے بھی ہیں کہ (تقسیم) صدقات میں تم پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ اگر ان کو اس میں سے (خاطر خواہ) مل جائے تو خوش رہیں اور اگر (اس قدر) نہ ملے تو جھٹ خفا ہو جائیں ﴿٥٨﴾
‘And among them are men who accuse you (O Muḥammad) in the matter of (the distribution of) the alms.’ (9:58) [10]
More ḥadīth telling us that these people will join the Dajjal.
The following ḥadīth is also related to Zul-Khuwaisara since it also tells us about the hypocrites who reading the Qur’an but it will not pass their thoughts.
قال وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول سيخرج أناس من أمتي من قبل المشرق يقرون القرآن لا يجاوز تراقيهم كلما خرج منهم قرن قطع كلما خرج منهم قرن قطع حتى عدها زيادة على عشرة مرات كلما خرج منهم قرن قطع حتى يخرج الدجال في بقيتهم. مسند احمد
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب میری امت میں سے مشرقی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا جب بھی ان کی کوئی نسل نکلے گی اسے ختم کردیا جائے گا یہ جملہ دس مرتبہ دہرایا یہاں تک کہ ان کے آخری حصے میں دجال نکل آئے گا۔ مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 2361
It was narrated by Abdullah bin Umar y that I heard, the Messenger of Allah r saying that: ‘Soon among my nation (Muslim Ummah) there will appear people from the east who will recite Qur’an but it will not go any deeper than their collarbones or their throats. Whenever any of their offspring will appear, they will be eliminated. He r repeated this 10 times and then said until in the last of them will appear with the Dajjal (Anti-Christ).[11]
ثم قال حدث فإنا قد نهينا عن الحديث فقال ما كنت لأحدث وعندي رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم من قريش فقال عبد الله بن عمرو سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يخرج قوم من قبل المشرق يقرون القرآن لا يجاوز تراقيهم كلما قطع قرن نشأ قرن حتى يخرج في بقيتهم الدجال. مسند احمد
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ نے پھر فرمایا تم حدیث بیان کرو کیونکہ ہمیں تو اس سے روک دیا گیاہے نوف نے کہا کہ صحابی رسول اللہ اور وہ بھی قریشی کی موجودگی میں حدیث بیان نہیں کر سکتا چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مشرق کی جانب سے ایک قوم نکلے گی یہ لوگ قرآن تو پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا جب بھی ان کی ایک نسل ختم ہو گی دوسری پیدا ہو جائے گی یہاں تک کہ ان کے آخر میں دجال نکل آئے گا۔ مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 2443 حدیثمتواترحدیثمرفوع
It was narrated by Abdullah bin Umar y that I heard, the Messenger of Allah r saying that: ‘There will appear a nation from the east who will recite the Qur’an but it will not go any deeper than their collarbones or their throats. Whenever any of their offspring gets eliminated another will appear until the last of them will appear with the Dajjal (Anti-Christ). [12]
Please note that the same two characteristics are described about the above people:
- They will read the Qur’an but will not pass their throats.
- They will apparently worship Allah I much more than the Muslims.
This exactly matches with the ḥadīth of Zul-Khuwaisara and therefore these ḥadīth also point towards the fitnah of Banu Tamim of Najd (the east of Arabia). It proves that the Dajjal will appear among them.
The previous two ḥadīth; Ḥadīth 489, Sunan Nisai, Vol. 2, and Ḥadīth 407, Sunan Nisai, Vol. 3, are ḥadīth Matwatar Marfu. Already have proven that the word “east” in above ḥadīth means Najd.
They will appear again and again throughout history
ولقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول يخرج من أمتي قوم يسيون الأعمال يقرون القرآن لا يجاوز حناجرهم قال يزيد لا أعلم إلا قال يحقر أحدكم عمله من عملهم يقتلون أهل الإسلام فإذا خرجوا فاقتلوهم ثم إذا خرجوا فاقتلوهم ثم إذا خرجوا فاقتلوهم فطوبى لمن قتلهم وطوبى لمن قتلوه كلما طلع منهم قرن قطعه الله عز وجل فردد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرين مرة أو أكثر وأنا أسمع. مسند احمد
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت میں ایک ایسی قوم بھی پیدا ہو گی جو بد کر دار ہو گی یہ لوگ قرآن پڑہتے ہوں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا تم اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے سامنے حقیر سمجھو گے وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے جب ان کا خروج ہو تو تم انہیں قتل کرنا اور جب تک ان کا خروج ہوتا رہے تم انہیں قتل کرتے رہناخوشخبری ہے اس شخص کے لئے جو انہیں قتل کرے اور خوشخبری ہے اس شخص کے لئے جسے وہ قتل کریں جب بھی ان کی کوئی نسل نکلے گی اللہ اسے ختم کردے گا یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس یا اس سے زیادہ مرتبہ دہرائی اور میں سنتارہا۔ مسند احمد:جلد سوم:حدیث نمبر 1091
It was narrated by Abdullah bin Umar y that I heard, the Messenger of Allah r saying that: ‘A nation will be born from my Ummah (Muslims), who will be of bad character. They will recite Qur’an but it will not go any deeper than their collarbones or their throats. Apparently, you will consider your deeds much less than their deed. They will kill Muslims. If they appear, you must kill them, and you should keep on killing them whenever they rise. Glad tidings are for the person who will kill them. Glad tidings are for the person who will kill them. Whenever any of their offspring appear, Allah I will eliminate them. The Prophet said this 20 times or more and I was listening to it.[13]
Banu Tamim had the same rude behavior with the Sahaba also.
حدثنا يونس حدثنا حماد يعني ابن زيد عن الزبير يعني ابن خريت عن عبد الله بن شقيق قال خطبنا ابن عباس يوما بعد العصر حتى غربت الشمس وبدت النجوم وعلق الناس ينادونه الصلاة وفي القوم رجل من بني تميم فجعل يقول الصلاة الصلاة قال فغضب قال أتعلمني بالسنة شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم جمع بين الظهر والعصر والمغرب والعشا قال عبد الله فوجدت في نفسي من ذلك شيا فلقيت أبا هريرة فسألته فوافقه مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 416 حدیث مرفوع
عبداللہ بن شقیق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن عصر کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے وعظ فرمایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے نظر آنے لگے، لوگ نماز، نماز پکارنے لگے، اس وقت لوگوں میں بنو تمیم کا ایک آدمی تھا، اس نے اونچی آواز سے نماز، نماز کہنا شروع کر دیا، اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا اور وہ فرمانے لگے کیا تو مجھے سنت سکھانا چاہتا ہے؟ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کے درمیان جمع صوری فرمایا ہے، راوی حدیث عبداللہ کہتے ہیں کہ میرے دل میں اس کے متلعق کچھ خلجان سا پیدا ہوا ، چنانچہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے بھی اس کی موافقت کی۔ مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 416 حدیثمرفوع
‘Ibn Abbas y once preached to us after the Asr prayer, until the sun set and the stars appeared, and people began to say: “The prayer! The prayer!” A man of the Banu Tamim came up to him and said: loudly and constantly: “The prayer! The prayer!”, and Ibn Abbas y got angry and replied: “Are you teaching me the Sunnah, you wretch? We have seen the Prophet that he combined two prayer (timings)”. The narrator Abdullah says that there was some doubt in my heart about this, so, I met Hazrat Abu Huraira y and asked about this and he agreed (on the problem of combining two prayers).[14]
حدثنا يزيد أخبرنا عمران بن حدير ومعاذ قال حدثنا عمران يعني ابن حدير عن عبد الله بن شقيق قال قام رجل إلى ابن عباس فقال الصلاة فسكت عنه ثم قال الصلاة فسكت عنه ثم قال الصلاة فقال أنت تعلمنا بالصلاة قد كنا نجمع بين الصلاتين مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أو على عهد رسول الله قال معاذ على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم. مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 1383 حدیث مرفوع
عبداللہ بن شقیق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن عصر کے بعد حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ہمارے سامنے وعظ فرمایا، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا، اور ستارے نظر آنے لگے، لوگ نماز، نماز پکارنے لگے، اس وقت لوگوں میں بنو تمیم کا ایک آدمی تھا، اس نے اونچی آواز سے نماز، نماز کہنا شروع کر دیا، اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو غصہ آگیا اور وہ فرمانے لگے کیا تو مجھے سنت سکھانا چاہتا ہے؟ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازوں کے درمیان جمع صوری فرمایا ہے۔ مسند احمد:جلد دوم:حدیث نمبر 1383 حدیث مرفوع
‘Ibn Abbas y once preached to us after the Asr prayer, until the sun set and the stars appeared, and people began to say: “The prayer! The prayer!” A man of the Banu Tamim came up to him and said: loudly and constantly: “The prayer! The prayer!” And Ibn Abbas y got angry and replied: “Are you teaching me the Sunnah, you wretch?” We have seen Prophet that he combined two prayer (timings)”[15]
They will be proud of themselves.
Note: That again the word arrow is used in this ḥadīth.
حدثنا يحيى عن التيمي عن أنس قال ذكر لي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ولم أسمعه منه إن فيكم قوما يعبدون ويدأبون حتى يعجب بهم الناس وتعجبهم نفوسهم يمرقون من الدين مروق السهم من الرمية. مسند احمد
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بیان کیا گیا لیکن میں نے اسے خود نہیں سنا کہ تم میں ایک قوم ایسی آئے گی جو عبادت کرے گی اور دینداری پر ہوگی، حتیٰ کہ لوگ ان کی کثرت عبادت پر تعجب کیا کریں گے اور وہ خود بھی خود پسندی میں مبتلاء ہوں گے، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ مسند احمد:جلد پنجم:حدیث نمبر 1861 حدیث مرفوع
Narrated Hazrat Anas b. Malik y that: our Dear Prophet Muḥammad r said that a nation will come amongst you who will worship and follow religion (Islam) so much that people will be amazed by the excess of their worshipping (Allah) and they themselves will be feeling proud of themselves. These people will go out of religion like an arrow passes through the game.[16]
أخبرنا محمد بن المبارك حدثنا صدقة بن خالد عن ابن جابر حدثنا شيخ يكنى أبا عمرو عن معاذ بن جبل قال سيبلى القرآن في صدور أقوام كما يبلى الثوب فيتهافت يقرونه لا يجدون له شهوة ولا لذة يلبسون جلود الضأن على قلوب الذاب أعمالهم طمع لا يخالطه خوف إن قصروا قالوا سنبلغ وإن أساوا قالوا سيغفر لنا إنا لا نشرك بالله شيا. سنن دارمی
حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں لوگوں کے دلوں میں یہ قرآن اس طرح پرانا ہوجائے گا جس طرح کپڑا پرانا ہوجاتا ہے اور سے پھینک دیا جاتا ہے لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کو اس میں کوئی لذت اور دلچسپی محسوس نہیں ہوگی یہ لوگ بھیڑیوں کی کھال پہنیں گے اور انکے دل بھیڑیوں جیسے ہوں گے لالچ ان کا عمل ہوگا انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اور اگر وہ کسی نیک کام میں کوئی کمی کریں گے تو ساتھ یہ کہیں گے کہ ہم اسے پورا کر لیں گے اور اگر کسی غلطی کا ارتکاب کریں گے تو یہ کہیں گے ہمیں مغفرت نصیب ہوجائے کیونکہ ہم کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہراتے۔ سنن دارمی:جلد دوم:حدیث نمبر 1170
Hazrat Muaz ibn Jabal y said that the Qur’an will become aged in the hearts of the people just like a piece of cloth becomes aged and is thrown away. People will read the Qur’an but they will neither have joy nor interest in it. These people will be wearing the skins of lamb and they will have hearts of wolves. Their actions will consist of greed. They will have no fear (of Allah) and if they have some short coming in some good deed (virtue), then they will say that we will fulfil the shortcoming, and if they commit some sin (mistake), then they will say that we will be forgiven because we are not making partners with Allah.[17]
Banu Tamim did not accept the good news from the Prophet.
حدثنا عبدان قال أخبرنا أبو حمزة عن الأعمش عن جامع بن شداد عن صفوان بن محرز عن عمران بن حصين قال إني عند النبي صلی الله عليه وسلم إذ جائه قوم من بني تميم فقال اقبلوا البشری يا بني تميم قالوا بشرتنا فأعطنا فدخل ناس من أهل اليمن فقال اقبلوا البشری يا أهل اليمن إذ لم يقبلها بنو تميم قالوا قبلنا جئناک لنتفقه في الدين ولنسألک عن أول هذا الأمر ما کان قال کان الله ولم يکن شيئ قبله وکان عرشه علی المائ ثم خلق السموات والأرض وکتب في الذکر کل شيئ ثم أتاني رجل فقال يا عمران أدرک ناقتک فقد ذهبت فانطلقت أطلبها فإذا السراب ينقطع دونها وايم الله لوددت أنها قد ذهبت ولم أقم صحیح بخاری
عبدان، ابوحمزہ، اعمش، جامع بن شداد، صفوان بن محرز، عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں بنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا کہ اتنے میں بنو تمیم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا کہ اے بنی تمیم! خوشخبری قبول کرو، ان لوگوں نے کہا کہ آپ نے ہمیں خوشخبری دی ہے تو کچھ عطا بھی کیجئے، پھر یمن کے کچھ لوگ آئے تو آپ نے فرمایا کہ اہل یمن خوشخبری قبول کرو، اس لئے کہ بنو تمیم نے اس کو قبول نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے قبول کیا ہم آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور آپ سے اس امر (یعنی دنیا) کی ابتداء کے متعلق دریافت کریں کہ (اس سے پہلے) کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تھا اور اس سے پہلے کوئی خبر نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا، آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور لوح محفوظ میں تمام چیزیں لکھ دیں۔ پھر میرے پاس ایک شخص آیا اور کہا عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی اونٹنی کی خبر لے وہ بھاگ گئی ہے میں اسکو ڈھونڈنے کیلئے چلا تو دیکھا کہ سیراب سے پرے نکل گئی ہے اور خدا کی قسم! مجھے یہ پسند تھا کہ اونٹنی جائے تو جائے لیکن آپ کے پاس سے نہ ہٹوں۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 2288
Narrated ‘Imran bin Hussain y: While I was with The Prophet, some people from Banu Tamim came to him. The Prophet said: “O Banu Tamim! Accept the good news!” They said: “You have given us the good news; now give us (something)”. (After a while) some Yemenites entered, and he said to them, “O the people of Yemen! Accept the good news, as Banu Tamim have refused it”. They said: “We accept it, for we have come to you to learn the Religion. So we ask you what the beginning of this universe was”. The Prophet r said: “There was Allah, and nothing else before Him and His Throne was over the water, and He then created the Heavens and the Earth and wrote everything in the Book”. Then a man came to me and said: ‘O Imran! Follow your she camel for it has run away!” So I set out seeking it, and behold, it was beyond the mirage! By Allah, I wished that it (my she-camel) had gone but that I had not left (the gathering)”.[18]
Another ḥadīth telling us that Banu Tamim did not accept
good news from our Prophet
حدثنا عمرو بن علي حدثنا أبو عاصم حدثنا سفيان حدثنا أبو صخرة جامع بن شداد حدثنا صفوان بن محرز المازني حدثنا عمران بن حصين قال جائت بنو تميم إلی رسول الله صلی الله عليه وسلم فقال أبشروا يا بني تميم قالوا أما إذ بشرتنا فأعطنا فتغير وجه رسول الله صلی الله عليه وسلم فجائ ناس من أهل اليمن فقال النبي صلی الله عليه وسلم اقبلوا البشری إذ لم يقبلها بنو تميم قالوا قد قبلنا يا رسول الله. صحیح بخاری
عمرو بن علی ابوعاصم سفیان ابوصخرہ جامع بن شداد صفوان بن محرز مازنی حضرت عمران بن حصین سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ جب بنو تمیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا اے بنو تمیم! بشارت حاصل کرو انہوں نے کہا کہ آپ نے بشارت تو دے دی اب کچھ عطا فرمایئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہوگیا پھر یمن کے کچھ لوگ آیائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنو تمیم نے تو بشارت کو قبول نہیں کیا ہے تم قبول کرلو تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہم نے قبول کر لی۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1540
Narrated by Imran bin Husain: The people of Banu Tamim came to Allah’s Apostle, and he said: “Be glad (i.e.: have good tidings), O Banu Tamim!” They said: “As you have given us good tidings, then give us (some material things): On that the features of Allah’s Apostle changed (i.e.: he took it ill). Then some people from Yemen came, and the Prophet said (to them): “Accept good tidings as Banu Tamim have not accepted them”. They said: “We accept them, O Allah’s Apostle!”[19]
Banu Tamim is the worst among the Arabs.
حدثني عبد الله بن محمد حدثنا وهب حدثنا شعبة عن محمد بن أبي يعقوب عن عبد الرحمن بن أبي بکرة عن أبيه عن النبي صلی الله عليه وسلم قال أرأيتم إن کان أسلم وغفار ومزينة وجهينة خيرا من تميم وعامر بن صعصعة وغطفان وأسد خابوا وخسروا قالوا نعم فقال والذي نفسي بيده إنهم خير منهم. صحیح بخاری
عبداللہ بن محمد، وہب، شعبہ، محمد بن ابی یعقوب، عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد ابی بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ بتاؤ اگر اسلم اور غفار اور مزنیہ اور جہینیہ (قبیلوں کے نام ہیں) قبیلہ تمیم اور عامر بن صعصعہ اور غطفان اور اسد سے بہتر ہوں تو وہ لوگ گھاٹے اور نقصان میں ہوں، آپ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جسکے قبضے میں میری جان ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہیں۔ صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1556 حدیث مرفوع مکررات 8 متفق علیہ 7
Narrated Abu Bakra y: The Prophet r said: “Do you think if the tribes of Aslam, Ghifar, Muzaina, and Juhaina are better than the tribes of Tamim, ‘Amir bin Sa’sa’a, Ghatfan and Asad, they (the second group) are despairing and losing?” They the Prophet’s companions said: “Yes, (they are)”. He said: “By Him in Whose Hand my soul is, they (the first group) are better than them (the second group)”.
حدثنا محمد بن بشار حدثنا غندر حدثنا شعبة عن محمد بن أبي يعقوب قال سمعت عبد الرحمن بن أبي بکرة عن أبيه أن الأقرع بن حابس قال للنبي صلی الله عليه وسلم إنما بايعک سراق الحجيج من أسلم وغفار ومزينة وأحسبه وجهينة ابن أبي يعقوب شک قال النبي صلی الله عليه وسلم أرأيت إن کان أسلم وغفار ومزينة وأحسبه وجهينة خيرا من بني تميم وبني عامر وأسد وغطفان خابوا وخسروا قال نعم قال والذي نفسي بيده إنهم لخير منهم. صحیح بخاری
محمد بن بشار غندر شعبہ محمد بن ابویعقوب عبدالرحمن بن ابی بکرہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اقرع بن حابس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ سراق الحجیج جو اسلم کے قبیلہ سے ہے اور غفار مزینہ جہینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو؟ اسلم مزینہ اور جہینہ یہ سب بنی تمیم بنی عامر اور غطفان ناکام اور نامراد سے بہتر ہیں۔ اقرع بن حابس نے عرض کیا جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ اسلم و غفار وغیرہ بنی تمیم وغیرہ سے بہت اچھے ہیں۔ صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 742 حدیث مرفوع مکررات 8 متفق علیہ 7
Narrated Abu Bakra: Al-Aqra’ bin Habis said to the Prophet: “Nobody gave you the pledge of allegiance but the robbers of the pilgrims (i.e.: those who used to rob the pilgrims) from the tribes of Aslam, Ghifar, and Muzaina”. (Ibn Abi Ya’qub is in doubt whether Al-Aqra’ added ‘and Juhaina.’) The Prophet r said: “Don’t you think that the tribes of Aslam, Ghifar, and Muzaina (and also perhaps) Juhaina are better than the tribes of Banu Tamim, Banu Amir, Asad, and Ghatfan?” Somebody said: “They were unsuccessful and losers!” The Prophet r said: “Yes, by Him in Whose Hands is my life, they (i.e.: the former) are better than they (i.e.: the latter)
[1]. Ṣaḥīḥ Bukhari, Vol. 3, Ḥadīth 1839.
[2]. Ṣaḥīḥ Bukhari, Vol. 3, Ḥadīth 1839.
[3]. Ṣaḥīḥ Būkhari,Volume 9, Book 93, Number 527.
[4]. Ṣaḥīḥ Bukhari 93/527.
[5]. Sunan Nisai, Vol. 2, Ḥadīth 489.
[6]. Masnad Ahmad, Vol. 9, Ḥadīth 44.
[7]. Masnad Ahmad, Vol. 9, Ḥadīth 44.
[8]. Kharijites (Arabic: خوارج) Khawārij, literally “those who went out”; (singular, Khāriji) is a general term embracing various Muslims who, while initially supporting the authority of the final Rashidun Khalifa Ali ibn Abi Talib, then later rejected his leadership. They first emerged in the late 7th century A.D.
[9]. Sunan Nisai, Vol. 3, Ḥadīth 407, Ḥadīth Matwatar Marfu.
[10]. Ṣaḥīḥ Bukhari, Vol. 3, Ḥadīth 1839.
[11]. Masnad Ahmad, Vol. 3, Ḥadīth 2361.
[12]. Masnad Ahmad, Vol. 3, Ḥadīth 2361.
[13]. Masnad Ahmad, Vol. 3, Ḥadīth 2361.
[14]. Masnad Ahmad, Vol. 2, Ḥadīth 416.
[15]. Masnad Ahmad, Vol. 2, Ḥadīth 1383.
[16]. Masnad Ahmad, Vol. 5, Ḥadīth 1861
[17]. Sunan Darimi, Vol. 2, Ḥadīth 1170.
[18]. Ṣaḥīḥ Bukhari, Vol. 3, Ḥadīth 2888.
[19] Ṣaḥīḥ Bokhari, Vol 2, Ḥadīth 1540.