السلام عليكم
المسلمون يحيون بعضهم البعض بعبارة “السلام عليكم” ، وهي في الواقع دعاء للمسلمين لنداء بعضهم البعض. أبسط شكل يعني “السلام عليكم” ، ليس فقط “السلام” بل السلام من الله
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَوَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم
“ لاَ تَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا . أَوَلاَ أَدُلُّكُمْ عَلَى شَىْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلاَمَ بَيْنَكُمْ
رواه مسلم في كتاب الإيمان، باب بيان أنه لا يدخل الجنة إلا المؤمنون 1/ 74 (54) ”
مسند احمد
کتاب: حضرت معاذ بن جبل (رض) کی مرویات
باب: حضرت معاذ بن جبل (رض) کی مرویات
حدیث نمبر: 21097
حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ حَدَّثَنِي أَبِي حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ حَدَّثَنَا جَهْضَمٌ يَعْنِي الْيَمَامِيَّ حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ حَدَّثَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي سَلَّامٍ عَنْ أَبِي سَلَّامٍ وَهُوَ زَيْدُ بْنُ سَلَّامِ بْنِ أَبِي سَلَّامٍ نَسَبُهُ إِلَى جَدِّهِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَائِشٍ الْحَضْرَمِيُّ عَنْ مَالِكِ بْنِ يَخَامِرَ أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَالَ احْتَبَسَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ عَنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ حَتَّى كِدْنَا نَتَرَاءَى قَرْنَ الشَّمْسِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيعًا فَثُوِّبَ بِالصَّلَاةِ وَصَلَّى وَتَجَوَّزَ فِي صَلَاتِهِ فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ كَمَا أَنْتُمْ عَلَى مَصَافِّكُمْ ثُمَّ أَقْبَلَ إِلَيْنَا فَقَالَ إِنِّي سَأُحَدِّثُكُمْ مَا حَبَسَنِي عَنْكُمْ الْغَدَاةَ إِنِّي قُمْتُ مِنْ اللَّيْلِ فَصَلَّيْتُ مَا قُدِّرَ لِي فَنَعَسْتُ فِي صَلَاتِي حَتَّى اسْتَيْقَظْتُ فَإِذَا أَنَا بِرَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَتَدْرِي فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ لَا أَدْرِي يَا رَبِّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ لَا أَدْرِي رَبِّ فَرَأَيْتُهُ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ كَتِفَيَّ حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ أَنَامِلِهِ بَيْنَ صَدْرِي فَتَجَلَّى لِي كُلُّ شَيْءٍ وَعَرَفْتُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ فِيمَ يَخْتَصِمُ الْمَلَأُ الْأَعْلَى قُلْتُ فِي الْكَفَّارَاتِ قَالَ وَمَا الْكَفَّارَاتُ قُلْتُ نَقْلُ الْأَقْدَامِ إِلَى الْجُمُعَاتِ وَجُلُوسٌ فِي الْمَسَاجِدِ بَعْدَ الصَّلَاةِ وَإِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عِنْدَ الْكَرِيهَاتِ قَالَ وَمَا الدَّرَجَاتُ قُلْتُ إِطْعَامُ الطَّعَامِ وَلِينُ الْكَلَامِ وَالصَّلَاةُ وَالنَّاسُ نِيَامٌ قَالَ سَلْ قُلْتُ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينِ وَأَنْ تَغْفِرَ لِي وَتَرْحَمَنِي وَإِذَا أَرَدْتَ فِتْنَةً فِي قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُونٍ وَأَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّهَا حَقٌّ فَادْرُسُوهَا وَتَعَلَّمُوهَا
ترجمہ:
حضرت معاذ ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے صبح کے وقت تشریف لانے میں اتنی تاخیر کردی کہ سورج طلوع ہونے کے قریب ہوگیا پھر نبی کریم ﷺ تیزی سے باہر نکلے اور مختصر نماز پڑھائی سلام پھیر کر نبی کریم ﷺ نے فرمایا اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے رہو پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا میں تمہیں اپنے تاخیر سے آنے کی وجہ بتاتا ہوں آج رات میں تہجد کے لئے کھڑا ہوا اور جتنا اللہ کو منظور ہوا میں نے نماز پڑھی دوران نماز مجھے اونگھ آگئی میں ہوشیار ہوا تو اچانک میرے پاس میرا رب انتہائی حسین صورت میں آیا اور فرمایا اے محمد! ﷺ ملا اعلیٰ کے فرشتے کس وجہ سے جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا پروردگار! میں نہیں جانتا (دو تین مرتبہ یہ سوال جواب ہوا) پھر پروردگار نے اپنی ہتھیلیاں میرے کندھوں کے درمیان رکھ دیں جن کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے اور چھاتی میں محسوس کی حتٰی کہ میرے سامنے آسمان و زمین کی ساری چیزیں نمایاں ہوگئیں اور میں نے انہیں پہچان لیا، اس کے بعد اللہ نے پھر پوچھا کہ اے محمد! ﷺ ملا اعلیٰ کے فرشتے کس چیز کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کفارات کے بارے میں فرمایا کفارات سے کیا مراد ہے؟ میں نے عرض کیا جمعہ کے لئے اپنے پاؤں سے چل کر جانا، نماز کے بعد بھی مسجد میں بیٹھے رہنا، مشقت کے باوجود وضو مکمل کرنا، پھر پوچھا کہ ” درجات ” سے کیا مراد ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جو چیزیں بلند درجات کا سبب بنتی ہیں، وہ بہترین کلام، سلام کی اشاعت، کھانا کھلانا اور رات کو ” جب لوگ سو رہے ہوں ” نماز پڑھتے ہے پھر فرمایا اے محمد! ﷺ سوال کرو میں نے عرض کیا اے اللہ! میں تجھ سے پاکیزہ چیزوں کا سوال کرتا ہوں، منکرات سے بچنے کا، مسکینوں سے محبت کرنے کا اور یہ کہ تو مجھے معاف فرما اور میری طرف خصوصی توجہ فرما اور جب لوگوں میں سے کسی قوم کی آزمائش کا ارادہ کرے تو مجھے فتنے میں مبتلا ہونے سے پہلے موت عطاء فرما دے اور میں تجھ سے تیری محبت، تجھ سے محبت کرنے والوں کی محبت اور تیری محبت کے قریب کرنے والے اعمال کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ واقعہ برحق ہے، اسے سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ
et, consectetur adipiscing elit. Ut elit tellus, luctus nec ullamcorper mattis, pulvinar dapibus leo.